یہ کس کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہو فرحت جی
یہ تو مدتوں سے تمھیں انتظار کس کا ہے
تڑپ تڑپ کے یہ جب سرد ہونے لگتا ہے
تو پوچھتے ہیں دل بے قرار کس کا ہے
یہ بات طے ہی نہیں ہوسکی ہے آج تلک
ہمارے دونوں میں آخر فرار کس کا ہے
نہ جانے کس نے میرے منظروں کو دھندلایا
نہ جانے شہر پہ چھایا غبار کس کا ہے
اپنی محبتوں کی خدائی دیا نہ کر
ہر بے طلب کے ہاتھ کمائی دیا نہ کر
دیتی ہے جب ذرا سی بھی آہٹ اذیتیں
ایسی خموشیوں میں سنائی دیا نہ کر
کچھ تو مرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تَو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تَو
رسم و رہِ دنیا ہی نبھانے کیلئے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تَو زمانے کے لئے آ
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks