شہر میں ان گنت مکان تو ہیں
کوئی گھر دار ہے نہ گھر باقی
ہجر کی رات چھوڑ جاتی ہے
نت نئی بات چھوڑ جاتی ہے
عشق چلتا ہے تا ابد لیکن
زندگی ساتھ چھوڑ جاتی ہے
دل بیابانی ساتھ رکھتا ہے
آنکھ برسات چھوڑ جاتی ہے
چاہ کی اک خصوصیت ہے کہ یہ
مستقل مات چھوڑ جاتی ہے
مرحلے اس طرح کے بھی ہیں کہ جب
ذات کو ذات چھوڑ جاتی ہے
ہجر کا کوئی نہ کوئی پہلو
ہر ملاقات چھوڑ جاتی ہے
اور نہیں تو دل کے بارے
کچھ تو کہیں گے نین مسافر
جنگل میں کوئل کُرلائے
ہرسو گونجیں بین مسافر
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks