ہارنے کے خوف سے یہ فیصلہ کرنا پڑا
جنگ سے پہلے میں سب ہتھیار دے کر آ گیا
عین ممکن ہے وہ میرا نام تک رہنے نہ دے
میں اسے اپنے سبھی آثار دے کر آ گیا
وقت نے دہرا دیا قصہ مرے اسلاف کا
اہل مکہ کو میں پھر گھر بار دے کر آ گیا
اپنے حصے کی حکومت بھی اسی کو سونپ دی
میں ندیم اس کو بھرا دربار دے کر آ گیا
گلی کے موڑ پہ خالی مکان باقی ہے
ندیم کوئی تو اپنا نشان باقی ہے
یہ گھر میں پھر سے پرندوں کے غول کیوں اترے
ابھی تو پچھلے سفر کی تکان باقی ہے
ابھی تو پہلے سپاہی نے جان دی تجھ پر
تو غم نہ کر کہ مرا خاندان باقی ہے
تمہارے عشق کے ساتوں سوال مشکل ہیں
غم حیات کا بھی امتحان باقی ہے
زمانے بھر کو تسلی دلانے والے سن
یہ ایک شخص ابھی بدگمان باقی ہے
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks