خدا کی طرح کوئی آدمی بھی ہے شاید
نظر جو آتا نہیں آس پاس ہو کر بھی
نمو کی روشنی لے کر اُگا ہوں صحرا میں
میں سبز ہو نہیں سکتا ہوں گھاس ہو کر بھی
وجود وہم بنا، مٹ گیا مگر پھر بھی
تمہارے پاس نہیں ہوں قیاس ہو کر بھی
یہ آدمی پہ حکومت تمہیں مبارک ہو
فقیر کیسے چھپے خوش لباس ہو کر بھی
چاند روشن ہے تو بس شب کی اذیت تک ہے
جانتا ہوں کہ ترا ساتھ ضرورت تک ہے
ایک کردار کہانی کے لیے میں بھی ہوں
اور صحرا بھی مری آخرت ہجرت تک ہے
تو نہیں ہوتا اگر کس نے یہاں رہنا تھا
دوست یہ گھر بھی فقط تیری سکونت تک ہے
انتہا کوئی تو ہو تیری طرف سے جاناں
منتظر تیرا کوئی شخص قیامت تک ہے
اپنی تنہائی سے پوچھوں گا اگر پوچھ سکا
کیا یہ سچ ہے کہ ہر اک دوست سہولت تک ہے
There are currently 6 users browsing this thread. (0 members and 6 guests)
Bookmarks