ہاتھ اٹھایا تھا ستاروں کو پکڑنے کے لیے
چرخ نے چاند کو خنجر کی طرح تان لیا
آزمایا ہی نہیں دوسرے جذبوں کو ندیم
اس محبت کو ہی بس سب سے بڑا مان لیا
چلا گیا ہے وہ لیکن نشان اب بھی ہیں
کہ اس کے سوگ میں پسماندگان اب بھی ہیں
یہ اور بات کہ رہنا مرا گوارا نہیں
تمہارے شہر میں خالی مکان اب بھی ہیں
یہ عشق ہے کہ تجھے چھوڑ بھی نہیں سکتے
وگرنہ تجھ سے تو ہم بدگمان اب بھی ہیں
ہمیں تو پہلے بھی تم سے گلہ نہیں تھا کوئی
اور اب کے ہے بھی تو ہم بے زبان اب بھی ہیں
سہولت ہو اذیت ہو، تمہارے ساتھ رہنا ہے
کہ اب کوئی بھی صورت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
ہمارے رابطے ہی اس قدر ہیں تم ہو اور بس تم
تمہیں سب سے محبت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
اور اب گھر بار جب ہم چھوڑ کر آ ہی چکے ہیں تو
تمہیں جتنی بھی نفرت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks