گر نازنیں کے کہنے سے مانا ہو کچھ بُرا
میری طرف کو دیکھئے! میں نازنیں سہی
ہر وصلی سرکار پہ جدول ہے طلائی
اب آپ لگے رکھنے بڑی شان کے کاغذ
یاں و آتش نفساں ہیں کہ بھریں آہ تو جھٹ
آگ دامان شفق کو بھی لگا سکتے ہیں
روتے روتے چشم کا ہر گوشہ یاں
تجھ بِن اے نور بصر دُکھنے لگا
کیا خدائی ہے منڈانے لگے اب خط وہ لوگ
دیکھ کر ڈیوڑھی میں چھپ رہتے تھے جو نائی کو
گرچہ ہیں آبلہ پا دشت جنوں کے اے خضر
تو بھی تیار ہیں ہم مرحلہ پیمائی کو
گالی وہ اس کی ہو ہو کی آنکھیں دکھاتے وقت
ہے واقعی کہ پستہ و بادام سے لذیذ
نالے پہ میرے نالے کرنے لگی ہے اب تو
بلبل نے یہ نکالا نخرا نیا چمن میں
دیکھیں گے کہ جب آتے تھے آپ ایک ادا سے
ہو چیں بہ جبیں تکیہ بہ شمشیر کریں گے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks