تجھ کو بد عہد و بے وفا کہیے
ایسے جھوٹے کو اور کیا کہیے
میرے مطلب سے کیا غرض مطلب
آپ اپنا تو مدّعا کہیے
کب کسی در کی جُبّہ سائی کی
شیخ صاحب نماز کیا جانیں
سادگی، بانکپن، اغماز، شرارت، شوخی
تُو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
چشمِ نرگس کو دیکھ لیں پھر ہم
تم دکھا دو جو اک نظر آنکھیں
یہ نرالا ہے شرم کا انداز
بات کرتے ہو ڈھانک کر آنکھیں
راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گذرنے والے
ہم تو جاتے ہیں، ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے
حشر میں لطف ہو جب ان سے ہوں دو دو باتیں
وہ کہیں، کون ہو تم؟ ہم کہیں، مرنے والے
تم بھی چوم لو ، بے ساختہ پیار آ جائے
میں سناؤں جو کبھی دل سے فسانہ دل کا
There are currently 6 users browsing this thread. (0 members and 6 guests)
Bookmarks