سنا ہے قصۂ مجنوں و وامق و فرہاد
کسی کو عاشق آتش نہ سزا وار ہوئی
کس طرح سے میں دلِ وحشی کا کہنا مانوں
کوئی قائل نہیں دیوانے کی دانائی کا
یہی زنجیر کے نالے سے صدا آتی ہے
قید خانے میں برا حال ہے سودائی کا
بعد شاعر کے ہوا مشہور کلامِ شاعر
شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کا
بے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیم ِ عدم
دیکھتا ہوں جسے، ہوتا ہے وہ عریاں پیدا
اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جس کی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا
موجد اس کی ہے یہ روزی ہماری آتش
ہم نہ ہوتے تو نہ ہوتی شب ِ ہجراں پیدا
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
جس شخص نے کہ اپنے نخوت کے بل کو توڑا
راہِ خدا میں اس نے گویا جبل کو توڑا
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks