نالوں سے مرے کون تھا تنگ مرے بعد
کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے
بجلی کو جلا دیں گے وہ لب دانت دکھا کر
شغل آج کل ان کو ہے تبسم سے زیادہ
چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا
شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا
فرہاد سر کو پھوڑ کے تیشے سے مر گیا
شیریں نے ناپسند مگر بے ستوں کیا
باغ سنسان نہ کر، ان کو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مرغ ِ خوش الحاں پیدا
چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ
غافلو! زخم ِ زباں کا نہیں مرہم پیدا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمین پر سے اک نور تا آسمان تھا
عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks