Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
نقاب اس آفتاب حسن کا اندھیر رکھتا ہے
رخ روشن چھپا کر سب کیا ہے روز روشن کو
پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
ان انکھڑیوں میں اگر نشۂ شراب آیا
سلام جھک کر کروں گا جو پھر حجاب آیا
دیکھا جو مجھ غریب کو بولے عدم کے لوگ
مدت سے تھا یہ اپنے وطن سے نکل گیا
درد فراق یار سے کہنا ہے بندنہ
اعضا ہمارے ہو گئے ہیں مضمحل تمام
گزر ہو جو کبھی مرقد غربیاں پر
گھٹائیں پھوٹ بہیں، برق بے قرار ہوئی
زبان کون سی مشغول ذکر خیر نہیں
کہاں کہاں نہیں میں تیری داستاں سنتا
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks