غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ دان سنتا
زمینِ شعر کا افسانہ آسماں سنتا
گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے ، سر چڑھتا ہے ، دیوانہ ہوا ہے
معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
مشتاق ہیں کس ماہ کے انجم سے زیادہ
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا
چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا
رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا
پیری نے قد راست کو اپنے نگوں کیا
خراب قصر ِ تن کا ہمارے ستوں کیا
وحشت ِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سینکڑوں کوس نہیں صورت ِ انساں پیدا
روز ِ مولود سے، ساتھ اپنے ہوا، غم پیدا
لالہ ساں داغ اٹھانے کو ہوئے ہم پیدا
شب وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہربان تھا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks