ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی
کہ اک سفر مین رہے اور ہر سفر سے گئے
ترک تعلق ایک قیامت پرسش ِ یاراں اور عذاب
کیا بتلائیں ہجر زدہ دل کیسے کیسے دکھتا ہے
ہوں خود اپنی طبعیت سے پریشاں
مزاج ِ دہر تو برہم نہیں ہے
مجھے کچھ زخم ایسے بھی ملے ہیں
کہ جن کا وقت بھی مرہم نہیں ہے
کھنچی تھی جس سے حرف میں اک صورت ِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی
ہم سے سادہ لوگ اکثر آ گئے دھوکے میں
کتنا دل نشیں لہجہ ہے ترے تکلم کا
میں اعتراف ِ شکست بہار کر لوں گا
ذرا اڑے تو سہی بوئے زلف ِ عنبر یار
اُس لمحے تو گردش ِ خوں نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمیں اٹھائے اک رقص پیہم میں ہوں
اب کوئی چھو کے کیوں نہیں آتا ادھر کا جیون انگ
جانتے ہیں پر کیا بتلائیں، لگ گئی کیوں پرواز میں چپ
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks