یہی کافی ہے آپس کے بھرم نہ ٹوٹنے پائیں
کبھی بھی دوستوں کو آزما کر کچھ نہیں ملتا
ابھی سے برف الجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں
يہ مانا ميں کسی قابل نہيں ہوں ان نگاہوں ميں
برا کيا ہے اگر يہ دکھ يہ حيرانی مجھے دے دو
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر میرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشوں کا ہے
دل سے بڑا جہان میں امجد عدُو ہے کون
نہیں کھیل، اے داغ! یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے
اردو جس کا نام ہے ہم جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
ایک تجھے ہی تو چاہا تھا اپنی ذات سے بڑھ کر
یہ سوچا بھی نہیں کی تم میرے لئے سزا ہو جائو گے
فقط چاہنےسے ملتی گر منزل تو جستجو نہ ہوتی
معتبر وہی ہوا ہے جہاں میں جس نے تڑپ کر مانگا
There are currently 9 users browsing this thread. (0 members and 9 guests)
Bookmarks