کیا نذر دیں جو کوئی نئی آرزو کریں
دل میں تو ٹوٹنے کی بھی ہمت نہیں رہی
سلامت آئینے میں ایک چہرہ
شکستہ ہو تو کتنے دیکھتا ہے
جن کو دعویٰ تھا مسیحائی کا
اپنا ہی دیدۂ نم بھول گئے
اپنے معاملے میں حساب اسکا اور ہے
سو بار اے زباں سنبھل آپ کے لیے
زنگی ایک بار ملتی ہے
دوستو زندگی سے پیار کرو
خوب پایا ہے صلہ تیری پر ستاری کا
دیکھ اے صبح ِ طرب آج کہاں ہیں ہم لوگ
جتنے آگ کے دریا ہیں سب پار ہمیں کو کرنا ہپے
دنیا کس کے ساتھ آئی ہے دنیا تو دیوانی ہے
پھول میں ہو کہ ہوا میں خوشبو
نور ہے نور ہی برسائے گی
ہم پہ اب جو بھی قیامت گزرے
تیری دنیا تو سنور جائے گی
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks