میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
-میں وہ سائل ہوں جِسے کوئی صدا یاد نہیں
رہتا ہوں اگر میخانے میں تو مجھے شرابی نہ سمجھ اے ساقی
ہر وہ شخص جو مسجد سے نکلے نمازی نہیں ہوتا
کبھی کبھی اپنوں میں بھی دشمن نکل اتے ہیں
وفا کے باغ میں بے وفائی کے پھول نکل اتے ہیں
جس نے بھی کہا ہے سچ ہی کہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ
وقت اور حالات کے ساتھ انسان بدل جاتے ہیں
شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے
دفن کر دو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے
کہاں کے عشق و محبت کہاں کے ہجر و فراق
یہاں تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لیۓ
Chand lamhOon ki QurbaTon k Aewaz
MujhkO pehrOn Rula gyaa ik Shakhs
اک ایسے بھی راہ ورسم ہے اپنی
جو بےرخی سے ملے پھر بھی اجنبی نہ لگے
بس ایک ذرا سی بات تھی لیکن تمام عمر
وہ مجھ کو جاگنے کی سزا دے کے سو گیا
مجھے لکھ کر ہی کہیں محفوظ کر لو فرآز
تمہاری باتوں سے تو نکلتا جا رہا ہوں میں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks