پاؤں میں گھومتی ہے زمیں آسماں تلک
اس طفلِ شیر خوار کی رفتار دیکھنا
تم مجھے دیکھ کے اس درجہ پریشاں مت ہو
میرے جی کا تو بہلنا ہے پریشاں ہونا
صبحِ چمن میں ایک یہی آفتاب تھا
اس آدمی کی لاش کو اعزاز سے اٹھا
ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا بدن
قتل عاشق کو بہت ہے قامت تلوار دوست
بستر پر مو جو د رہے اور سیر ہفت افلاک
ایسی کسی پر رحمت کی بر سات نہیں دیکھی
دل پہ کھلتا ہے اسی موسِم میں
غم کسے کہتے ہیں اور کیا ہے طرب
کاش تعبیر میں تم ہی نکلو
جب کوئی خواب ہو تعبیر طلب
زمیں کے لوگ تو کیا، دو دلوں کی چاہت میں
خدا بھی ہو تو اسے درمیان لاؤ نہیں
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے
There are currently 7 users browsing this thread. (0 members and 7 guests)
Bookmarks