اس کے سینے کا زیرو بم ، توبہ!
دیوتاؤں کا دل دھڑک جائے
لے اگر جھوم کر وہ انگڑائی
زندگی دار پر اٹک جائے
ایسے بھر پور ہے بدن اس کا
جیسے ساون کا آم پک جائے
ہائے اس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے
فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے
بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے
ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے
وہ فصلِ گل ، وہ لبِ جوئبار یاد کرو
وہ اختلاط ، وہ قول و قرار یاد کرو
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks