دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جانِ فراز
مِل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے
جُز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
تُو کہاں ہے مگر دوست پرانے میرے
تُو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار
برگِ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے
شمع کی لَو تھی کہ وہ تُو تھا مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے
خلق کی بے خبری ہے کہ مری رسوائی
لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے
لُٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں سے بھرا ہے دامن
دیکھ غارت گرِ دل یہ بھی خزانے میرے
آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
کاش تُو بھی مری آواز کہیں سُنتا ہو
پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے
کاش تو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو
لوگ آتے ہیں بہت دل کو دُکھانے میرے
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks