کتنی بے ساختہ خطاہوں میں
آپکی رغبت و رضا ہوں میں
میں نے جب ساز چھیڑنا چاہا
خامشی چیخ اٹھی ، صدا ہوں میں
حشر کی صبح تک تو جاگوں گا
رات کا آخری دیا ہوں میں
جس نے مہ پاروں کے دل پگھلا دیے
وہ تو میری شاعری تھی ، میں نہ تھا
عشق کے کام منظم بھی ہیں ، ہنگامی بھی
شمع اک دوسرا کردار ہے افسانے کا
بن گیا فتنۂ محشر کا اثاثہ آخر
غلغلہ میری جوانی کے بہک جانے کا
زندگی راہ نوردی سے عبارت ہے عدم
موت مفہوم ہے رستے سے گزر جانے کا
ستارے بیخود و سرشار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
اندھیرے رو کشِ انوار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
عدم مت پوچھ کیا کیفیتیں تھیں ذہن پر طاری
نشاطِ روح کے معمار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
There are currently 6 users browsing this thread. (0 members and 6 guests)
Bookmarks