کہتے ہیں عمرِ رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
دیکھی نہیں ہے تو نے کبھی زندگی کی لہر
اچھا تو جا عدم کی صراحی اٹھا کے لا
خالی ہے ابھی جام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردشِ ایام! میں کچھ سوچ رہا ہوں
ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو ہوگی
ساغر کو ذرا تھام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں
پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ادراک ابھی پورا تعاون نہیں کرتا
دے بادۂ گلفام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں
حل کچھ تو نکل آئے گا حالت کی ضد کا
اے کثرتِ آلام! میں کچھ سوچ رہا ہوں
پھر آج عدم شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سرِ شام میں کچھ سوچ رہا ہوں
خدا کو سجدہ نہ کر ، گل رُخوں کو پیار نہ کر
مسافری میں محبت کے کاروبار نہ کر
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks