ہم سفالِ بے مرکب ہیں ندیم
گر رہے ہیں بت ہمارے ٹوٹ کر
بچھڑ کے تجھ سے کہاں دور ہم کو جانا ہے
یہی کہ شام سے پہلے ہی لوٹ آنا ہے
اِن پرندوں سے کہو شور مچایا جائے
سرد پانی میں نہیں ریت پہ مر جاؤں گا
اس سے کیا ہوگا اگر مجھ کو بچایا جائے
اب پرندوں کی نہیں پیڑ کی سازش ہے ندیم
جس طرف اس نے راستہ موڑا
خود کو اس سمت میں نے موڑ دیا
تجھ سے کوئی گلہ نہیں اے دوست
فیصلہ اس پہ میں نے چھوڑ دیا
اب مرے ہونٹ بھی ہیں پتھر کے
جس کو چوما اسی کو توڑ دیا
اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے
دل کی آہٹ سے تری آواز آتی ہے مجھے
اے غمِ زیست نمائش کا تبسم ہی سہی
کوئی تمہید تو ہو اشک فشانی کے لئے
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks