ابھی تو پہلے سپاہی نے جان دی تجھ پر
تو غم نہ کر کہ مرا خاندان باقی ہے
تمہارے عشق کے ساتوں سوال مشکل ہیں
غم حیات کا بھی امتحان باقی ہے
ریت پر پاؤں جم نہیں سکتے
ختم یہ سلسلہ کروں گا میں
اور تو کچھ نہ دے سکوں گا تجھے
تیرے حق میں دعا کروں گا میں
ہوا میں ایسے مجھ کو بے سہارا چھوڑ دیتا ہے
کہ جیسے ہاتھ سے کوئی غبارہ چھوڑ دیتا ہے
ہماری ڈائری پڑھنا کبھی تم غور سے
کہانی کے لیے یہ غم ابھی محفوظ ہیں
ندیم اس نے نہیں بدلا ہے غم کا پیراہن
تو پھر یوں ہے کہ کچھ ماتم ابھی محفوظ ہیں
محبت لازمی ہے مانتا ہوں
مگر ہمزاد اب میں تھک گیا ہوں
مرے چاروں طرف اک شور سا ہے
مگر پھر بھی یہاں تنہا کھڑا ہوں
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks