جس کی قبر کو ڈھانپنے تاج محل اُبھرے
وہ بے مثل ہے کون اُس رانی جیسا ہے
ہونٹ سِلے ہیں گویا بل بل ماتھے کا
تن میں ابلتا خوں طغیانی جیسا ہے
قّصہ اپنے ہاں کے سبھی منصوبوں کا
طوطے اور مَینا کی کہانی جیسا ہے
اُس چنچل کا قرب ہمیشہ کب حاصل
پل دو پل کا ساتھ جوانی جیسا ہے
اِس قطرے میں جانے الاؤ کیا کیا ہیں
آنکھ میں آنسو یوں تو پانی جیسا ہے
ماجدؔ تیرا فکر امینِ توانائی
اور سخن دریا کی روانی جیسا ہے
نقش بنا لے جو بھی خود کو مانی لگتا ہے
جس کا سخن ہو اُس کو وہ، لاثانی لگتا ہے
کم کم ایسا ہوتا ہے جب، آگ میں پھول کھلیں
معجزہ ایسا ہو تو وہ، یزدانی لگتا ہے
ہم تم سارے، خانہ بر دوشوں سے ہیں جن کو
جو موسم بھی آئے وہ، بُحرانی لگتا ہے
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks