اس سے بڑھ کر اور کیا ہو انتقام، اس سے بڑھ کر اور کیا بگڑے نظام
سازشِ طوفاں چلی کچھ اس طرح، اک شجر کے شاخچوں میں جنگ ہے
ابر کی جن پر ردائیں ایک ہیں، ایک سے موسم ہوائیں ایک ہیں
متّصل جن کی چھتیں ہیں شہر میں، ان گھروں ان آنگنوں میں جنگ ہے
ایک کے ہونٹوں پہ دیپک ہے اگر، دوسرا ملہار کے سر چھیڑ دے
جن سے ماجدؔ لطفِ جاں منسوب ہے، اب کے اُن نغمہ گروں میں جنگ ہے
ہے کس کو یہاں کون سا آزار، نہ جانے
یہ سانحہ، کوئی بڑی سرکار نہ جانے
جانے نہ کرے تیرگی کیا، اُس کی نمایاں
جگنو کا کِیا، کوئی شبِ تار نہ جانے
مٹی کو وہ بستر کرے، بازو کو سرہانہ
جو خانماں برباد ہے، گھر بار نہ جانے
چیونٹی کو ہمیشہ کسی چوٹی ہی سے دیکھے
عادل، کسی مظلوم کی تکرار نہ جانے
پینے کو بھی چھوڑے نہ کہیں، آبِ مصفّا
سیلاب ستم کا، کوئی معیار نہ جانے
یہ ہم بے خانماں زورِ ہوا جن کو اڑا لے گا
وہی تنکے ہیں جن سے آشیاں ترتیب پائے گا
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks