درس نہیں ہوں، میں ہوں اکائی زینے کی
وقت کا بالک کاہے کو دُہرائے مجھے
میں کہ جسے اِک ایک تمنّا عاق کرے
کون سخی ہو ایسا، جو اپنائے مجھے
لُو کا بھبھوکا ماجدؔ ماں کا ہاتھ نہیں
بے دم ہوتا دیکھ کے جو سہلائے مجھے
گئے دنوں کے نئے ولولے تلاش کروں
کھنچے ہوؤں سے مراسم نئے تلاش کروں
جو حرفِ حق ہے اُسے، دلنشیں بنانے کو
کچھ اور سابقے اور لاحقے تلاش کروں
میں ربط دیکھ کے سورج مکھی سے سورج کا
برائے چشم نئے رتجگے تلاش کروں
وہ جن میں جھانک کے سنبھلیں مرے نواح کے لوگ
میں اُس طرح کے کہاں آئنے تلاش کروں
جو آنچ ہی سے مبّدل بہ آب ہوتے ہیں
میں گرم ریت میں وہ آبلے تلاش کروں
بھگو کے گال، سجا کر پلک پلک آنسو
’ اُداس دل کے لئے مشغلے تلاش کروں‘
There are currently 6 users browsing this thread. (0 members and 6 guests)
Bookmarks