جس پہ ٹھہرے نہ کوئی چشمِ تماشا ماجدؔ
لفظ در لفظ وہ معنی کا اُجالا مانگوں
غیر پر اتنا اعتبار نہ کر
یہ ستم مجھ پہ بار بار نہ کر
گل پریشاں ہوا مہک کھو کر
حالِ دل تو بھی آشکار نہ کر
میں گیا وقت جا چکا ہوں، مرے
لوٹ آنے کا انتظار نہ کر
ہم کہ ہیں چاہتوں کے متوالے
ہم سے اغماض اے نگار! نہ کر
تُو کسی ایک ہی کا ہو کر رہ
خُو بُری ہے جو اِختیار نہ کر
فضا کا زہر ہی تریاق ہے تو پینے دے
مرے ضمیر! کرم کر مجھے بھی جینے دے
یہ ہم کہ غیر ہیں با وصفِ دعویٰٔ وحدت
جو راز دان ہوں باہم، ہمیں وہ سِینے دے
ہوس سے دُور ہو، اندر ہو پُر سکوں اُس کا
کوئی جو دے تو مری قوم کو دفینے دے
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks