وقت نہ پھر ہاتھ آئے گا ایسا اے صاحبِ بینائی
بول کوئی بولی اور ہم سارے اندھوں کے دام لگا
ہم کہ پیادہ پیا ہیں ماجدؔ جانیں یہ احوال ہمِیں
کن کن حیلوں دن کا سورج جا کے کنارِ شام لگا
شاہوں ساجو دیکھا بھی تو ہے کم ہمیں دیکھا
بادل نے جہاں بھی کہیں بے نم ہمیں دیکھا
منشا تھی ہر اوتار کی اِتنی سی کہ اُس نے
مسرور تھا جب بھی، بہ سرِ خم ہمیں دیکھا
ہر تُند بگولے نے ہر اِک سیلِ غضب نے
دیکھا بھی تو تنکوں ہی سا برہم ہمیں دیکھا
ہر دیکھنے والے نے دھندلکے میں حسد کے
مہتابِ سرِ صبح سا مدّھم ہمیں دیکھا
ماجدؔ ہوئے ہم اوس کنارِ لبِ جُو کی
ہر موج نے ندیا ہی میں مدغم ہمیں دیکھا
شہ بہ شہ اِک کھیل برپا ہے جہاں ہم آپ ہیں
اور اُن کے کھیلنے کو گاٹیاں ہم آپ ہیں
خم نہیں ہے ابروؤں میں چِیں جبینوں پر نہیں
جو نہیں تنتی کبھی ایسی کماں ہم آپ ہیں
There are currently 7 users browsing this thread. (0 members and 7 guests)
Bookmarks