ہُوا پھر یوں، جنوں پر عقل نے پہرے بِٹھا ڈالے
دِبک کر رہ گئے آشفتہ سر، آہستہ آہستہ
نظر میں ہے بہت بے رنگ دن کو اور بہ شب، روشن
فلک پر چاند کا ماجدؔ سفر آہستہ آہستہ
سانس میں غلطاں
گرد کے طوفاں
مِلک ہے اپنی
رنجِ فراواں
اُڑنے لگا کیوں
رنگِ گُلستاں
شاخِ شجر پر پھل پکنے کا ہر حیلہ ناکام لگا
وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا
آنے والے وقت کے تیور اِس میں وہ پڑھ لیتا ہے
اب بھی شاہ کے ہاتھ میں ہے جو وہ جمشیدی جام لگا
ہم جس کی کوڑی لائے تھے ہم نے جو کچھ سوچا تھا
اس کا ہونا ہی کیونکر اب کے بھی خیال خام لگا
ضبط کے ہاتھوں پھٹی پھٹی لگتی تھیں جتنی آنکھیں تھیں
اور سکوت لبوں کا سینے سینے کا کہرام لگا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks