بگولہ گھیر کر ہر ذِی طلب کو
ثمر تک نارسائی دے رہا ہے
وہ لاوا جو سِلے ہونٹوں کے پیچھے
دہکتا ہے سُنائی دے رہا ہے
وہ دے کر زر دریدہ عصمتوں کو
اُنہیں اُن کی کمائی دے رہا ہے
تناؤ ساس کے تیور کا ماجدؔ
دُلہن کو ’منہ دِکھائی‘ دے رہا ہے
جہاں کھُلیں مرے جَوہر وہ آسماں دے دے
میں کہکشاں ہوں، مجھے نور کی کماں دے دے
مرے سکوں کا جو، میری بقا کا ضامن ہو
جو مختلف ہو قفس سے، وہ آشیاں دے دے
کہوں جو بات وہ جھومر، جبینِ وقت کا ہو
جو حق سرا ہو، وہ منصور سی زباں دے دے
کٹی جو رات تو، نجمِ سحر سے میں نے کہا
میں جی اٹھا ہوں مرے کان میں اذاں دے دے
جو بعدِ جنگ علامت ہو، سرفرازی کی
عَلم وہ دے مرے ہاتھوں میں، وہ نشاں دے دے
There are currently 9 users browsing this thread. (0 members and 9 guests)
Bookmarks