خوفزدہ ہوں منزل کے اندیشوں سے
راہوں میں دانستہ کھویا کرتی ہوں
پانی کم ہو تو آنکھوں کی جھیلوں میں
چن چن کر یہ اشک سمویا کرتی ہوں
لمحہ لمحہ ہے میرا مصروف بہت
جگمگ جگمگ زخم پرویا کرتی ہوں
صبح نہ جانے تکیہ کیوں ہوتا ہے سرخ
رات تو میں پانی سے بھگویا کرتی ہوں
کل کے داغ مٹانا کل پہ رکھا ہے
آج تو آج کا دامن دھویا کرتی ہوں
سوچ سمندر کے اکثر خواب سفر میں
تھک کر اپنا آپ ڈبویا کرتی ہوں
اب ملے خود سے زمانہ ہو گیا
یہ کہاں میرا ٹھکانہ ہو گیا
عشق کیا کہیے کہ بس الزام تھا
چوٹ کھائی تھی بہانہ ہو گیا
دیکھتے کیسے کہ بھر آئی تھی آنکھ
کس طرف کوئی روانہ ہو گیا
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks