کیسے مانوں کہ تم نہیں میرے
کیسے کہہ دوں کہ تم پرائے ہو
میں سمندر کے پار کیا آؤں
تم تو اک ساحلی سرائے ہو
اس نے وفا کی اور ہی رسمیں بنائی ہیں
مجھ سے بڑھا کے غیر سے نظریں ملائی ہیں
سب دیکھتے ہیں اس کے ہی ایوان کی طرف
جس نے مری مکان کی اینٹیں چرائی ہیں
میں جانتی ہوں اس کی عبادت کے مرحلے
میرے ہی ساتھ اس نے تو عیدیں منائی ہیں
وہ صبح میرے گھر میں تھا جو شام کھو گیا
بستر کی اب تلک نہیں شکنیں ہٹائی ہیں
اشکوں کے بعد اپنا لہو دے کے کاٹ لیں
سمجھی تھی میں کہ درد کی فصلیں پرائی ہیں
وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا
ہوئی ہے رات وہ بارش ، گماں نہ تھا جس کا
ہوائیں خود اسے ساحل پہ لا کے چھوڑ گئیں
وہ ایک ناؤ کوئی بادباں نہ تھا جس کا
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks