ہر زخم میں دھڑکن کی صدا گونج رہی تھی
اِک حشر کا تھا شور شرابا اُسے کہنا
اک نیند میں بس عمر گزرتی رہی اپنی
اک خواب میں گھر ہم نے بنایا اسے کہنا
مجھ کو اتار حرف میں ، جانِ غزل بنا مجھے
میری ہی بات مجھ سے کر، میرا کہا سنا مجھے
رخشِ ابد خرام کی تھمتی نہیں ہیں بجلیاں
صبحِ ازل نژاد سے کرنا ہے مشورہ مجھے
لوحِ جہاں سے پیشتر لکھا تھا کیا نصیب میں
کیسی تھی میری زندگی ، کچھ تو چلے پتہ مجھے
کیسے ہوں خواب آنکھ میں ، کیسا خیال دل میں ہو
خود ہی ہر ایک بات کا کرنا تھا فیصلہ مجھے
چھوٹے سے اک سوال میں دن ہی گزر گیا مرا
تُو ہے کہ اب نہیں ہے تُو بس یہ ذرا بتا مجھے
دامِ صراطِ وقت سے کیسے گزرنا اب مجھے
ویسے تو دے گئے سبھی جاتے ہوئے دعا مجھے
میرا سفر مرا ہی تھا اٹھتے کسی کے کیا قدم
اپنے لئے تھا کھوجنا اپنا ہی نقشِ پا مجھے
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks