کسی کے سامنے اٹھی نظر تو بہہ نکلا
ہماری آنکھ میں کیا آبلے کا ہونا تھا
یہ کیا کہ ساتھ ازل سے ہے ہمسفر منزل
کسی جگہ تو کسی مرحلے کا ہونا تھا
ہم اپنی ذات سے باہر نکل ہی آئے ہیں
کبھی ہمیں بھی کسی راستے کا ہونا تھا
میری پہچان رکھا درد کا دھبہ تُو نے
خالی تصویر میں رہنے دیا چہرہ تُو نے
تیری آواز مرے کان سے جاتی ہی نہیں
بھول جاؤں تجھے اک روز کہا تھا تُو نے
رات چمنی سے لگا تھا کوئی امید کا چاند
دیکھ کھولا ہی نہیں اپنا دریچہ تُو نے
دل کے کمرے میں کہیں کوئی کمی آج بھی ہے
جانے کس حسن تناسب سے سجایا تُو نے
روز گرتے ہیں ترے ہاتھ سے گھر کے برتن
زندگی جینے کا سیکھا نہ قرینہ تُو نے
ٹوٹا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
تڑپا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks