تو کہاں تھا زندگی کے روز و شب آنکھوں میں تھے
آج یاد آیا کہ آنسو بے سبب آنکھوں میں تھے
رات بھر تاروں کی صورت جاگتے رہنا ہمیں
صبح دم کہنا کہ کیا کیا خوابِ شب آنکھوں میں تھے
تیری یادوں کی مہک ہر درد کو بِسرا گئی
ورنہ ترے دکھ بھی اے شہرِ طرب آنکھوں میں تھے
اب تلک جن کی جدائی کا قَلق جی کو نہ تھا
آج تُو بچھڑا تو وہ بھی سب کے سب آنکھوں میں تھے
اب تو ضبطِ غم نے پتھر کر دیا ورنہ فراز
دیکھتا کوئی کہ دل کے زخم جب آنکھوں میں تھے
لمحے وفورِ شوق کے ایسے نہ آئے تھے
یوں چپ ہیں ترے پاس ہی جیسے نہ آئے تھے
ساقی شکستِ جام سے چہروں پہ دیکھنا
وہ رنگ بھی کہ شعلۂ مے سے نہ آئے تھے
دل پر لگی خراش تو چہرے شفق ہوئے
اب تک تو زخم راس کچھ ایسے نہ آئے تھے
پہلے بھی روئے ہیں مگر اب کے وہ کرب ہے
آنسو کبھی بھی آنکھوں میں جیسے نہ آئے تھے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks