ہم دیوانوں کی قسمت میں لکھے ہیں یاں قہر بہت
کوچہ کوچہ سنگ بہت اور زنداں زنداں زہر بہت
قید ہی شر ط ہے اگر یہ بھی مر ی سزا کرو
وصل کی قید دو مجھے ہجر سے اب رہا کر و
ہر آواز زمستانی ہے ، ہر جذبہ زندانی ہے
کوچۂ یار سے دار و رسَن تک ایک سی ہی ویرانی ہے
گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں
سمجھو کہ اب ہوں اور دوبارہ نہیں ہوں میں
جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے
تو دل میں گُزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے
لکھنے ہیں ابھی مرثیہ ہائے دل و جاں اور
کچھ زخم مجھے اے مرے مرہم نظراں اور
جب اپنا سُر پاتال ہوا
تب وحیِ نفَس انزال ہوا
زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لئے
تو آسمان سے اترا خدا ہمارے لئے
ہم نے کھلنے نہ دیا بے سر و سامانی کو
کہاں لے جائیں مگر شہر کی ویرانی کو
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks