اترا بھی تو کب درد کا چڑھتا ہوا دریا
جب کشتیِ جاں موت کے ساحل سے لگی تھی
کسی کے تذکرے بستی میں کو بکو جو ہوئے
ہمیں خموش تھے موضوعِ گفتگو جو ہوئے
نہ دل کا درد ہی کم ہے نہ آنکھ ہی نم ہے
نہ جانے کون سے ارماں تھے وہ لہو جو ہوئے
نظر اٹھائی تو گم گشتۂ تحیر تھے
ہم آئنے کی طرح تیرے رو برو جو ہوئے
ہمیں ہیں وعدۂ فردا پہ ٹالنے والے
ہمیں نے بات بدل دی بہانہ جُو جو ہوئے
فرازؔؔؔ ہو کہ وہ فرہادؔ ہو کہ ہو منصورؔ
انہیں کا نام ہے ناکامِ آرزو جو ہوئے
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا
سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم
اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب
اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks