مقتل میں نظر آئیں گے پا بستۂ زنجیر
اہلِ نظر و اہلِ قلم ، اب کے برس بھی
پہلے کی طرح ہوں گے تہی جامِ سفالیں
چھلکے گا ہر اک ساغرِ جم اب کے برس بھی
ہو جائے گا ہر زخمِ کہن پھر سے نمایاں
روئے گا لہو دیدۂ نم اب کے برس بھی
پہلے بھی قیامت تھی ستم کاریِ ایّام
ہیں کشتۂ غم،کشتۂ غم اب کے برس بھی
اے دل ز َدَگان ! خیر مناؤ کہ ہیں نازاں
پندارِ خدائی پہ صنم ، اب کے برس بھی
اے شیخِ کرم ! دیکھ کہ با وصفِ چراغاں
تیرہ ہیں در و بامِ حرم اب کے برس بھی
کچھ بھی ہو گلستاں میں مگر کنجِ چمن سے
ہیں دور بہاروں کے قدم اب کے برس بھی
لب و تشنہ و نومید ہیں ہم اب کے برس بھی
اے ٹھہرے ہوئے ابرِ کرم اب کے برس بھی
اس شہرِ تمنا سے فراز آئے ہی کیوں تھے
یہ حال اگر تھا تو ٹھہرتے کوئی دن اور
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks