یہ قربتیں ہی تو وجہِ فراق ٹھہری ہیں
بہت عزیز ہیں یارانِ بے وفا مجھ کو
یہ اور بات کہ اکثر دمک اٹھا چہرہ
کبھی کبھی یہی شعلہ بجھا گیا مجھ کو
تجھے تراش کے میں سخت منفعل ہوں کہ لوگ
تجھے صنم تو سمجھنے لگے خدا مجھ کو
چٹخ اٹھا ہوں سلگتی چٹان کی صورت
پکار اب تو مرے دیر آشنا مجھ کو
وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹ میرے شانے پر
وہ خواب سانپ کی مانند ڈس گیا مجھ کو
ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو
کہ خود جدا ہے تو مجھ سے نہ کر جدا مجھ کو
اِس چکا چوند میں آنکھیں بھی گنوا بیٹھو گے
اُس کے ہوتے ہوئے پلکوں کو جھکائے رکھنا
ہم کو اُس نام نے مارا کہ جہاں بھی جائیں
خلقتِ شہر نے طوفان اٹھائے رکھنا
دوست پرسش پہ مصر اور ہمارا شیوہ
اپنے احوال کو خود سے بھی چھپائے رکھنا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks