وُہی جس کی آس مشامِ جاں کو رہی سدا
سرِ شاخِ شب وُہ کھِلا گلاب ہے سامنے
اور نہیں تو اس کو بھی بدنام کروں
لوگو آخر میں بھی کچھ تو کام کروں
آپ کے نام میں سکھ پاتے ہیں
آپ کے دم میں سکوں ڈھونڈتے ہیں
ایک بس چھت ہے اس کی یادوں کی
کوئی دیوار ہے نہ در باقی
چپ نہ رہو بے چین مسافر
بیت چلی ہے رین مسافر
میں پوچھتا ہوں کہ یہ کاروبار کس کا ہے
یہ دل مرا ہے مگر اختیار کس کا ہے
رنجش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
معذور ہیں تلوّنِ خاطر کو کیا کریں
ہم خود فرازؔؔ اپنی طبیعت سے تنگ ہیں
اجنبیت کی دھند چھٹ جائے
چمک اٹھے تری نظر شاید
There are currently 7 users browsing this thread. (0 members and 7 guests)
Bookmarks