اب اگر ٹوٹ گئے ہو تو شکایت کیسی
کیوں کسی مان کے دروازے سے لگ کر روئے
ہم ستائے ہوئے دنیا کے تیرے بعد اکثر
تیرے احسان کے دروازے سے لگ کر روئے
کوئی آواز تسلی نہ دلاسہ نکلا
کیسے انسان کے دروازے سے لگ کر روئے
ہم نے کب دل سے کہا تھا بھری برساتوں میں
تیرے پیمان کے دروازے سے لگ کر روئے
دل کے دروازے پہ روئے تو لگا ہے فرحت
جیسے زندان کے دروازے سے لگ کر روئے
سب راستے دشمن ہوئے اشجار مخالف
تو میرا ہوا ہے تو ہوئے یار مخالف
بنیاد رکھوں کوئی تو بنیاد ہے دشمن
دیوار اٹھاتا ہوں تو دیوار مخالف
ہاتھوں میں اٹھا لیتے ہیں اوزان کے پتھر
سنتے ہی نہیں ہیں میرے اشعار مخالف
میں عشق کو ہمدرد سمجھ بیٹھا تھا یارو
لگتے نہ تھے اس بحر کے آثار مخالف
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks