گھیر لیتا ہے نشانات قدم بھی فرحت
عشق کو حلقہ زنجیر بنا دیتا ہے
موت کا اعتبار کر لیتے
دو گھڑی انتظار کر لیتے
درد منہ پھیر کر نہیں جاتا
درد ہی اختیار کر لیتے
لوٹ کر پھر یہی ہوا ہوتا
تم کسی سے بھی پیار کر لیتے
اے میرے دل کبھی کبھی کوئی
شام ہی خوشگوار کر لیتے
جھوٹ کی نوکری سے بہتر تھا
خود کو بے روزگار کر لیتے
توڑ دوں یا اس پاگل دل کو رام کروں
کچھ نہ کچھ اس قصے کا انجام کروں
تم بولو میں گیت لکھوں آوازوں پر
تم پلکیں جھپکو تا کہ میں شام کروں
وہ کیوں مجھ کو لکھ دے اپنی آزادی
میں کیوں اپنا جیون اس کے نام کروں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks