بارانِ کرم مرے لئے ہے
غیروں کے لئے عتاب سا وُہ
ہُوں جیسے، اُسی کے دم سے قائم
تھامے ہے مجھے طناب سا وُہ
چھایا ہے بہ لُطف ہر ادا سے
خواہش پہ مری نقاب سا وہ
حاصل ہے سرشکِ لالہ رُو کا
محجوب سا، دُرِّ آب سا وُہ
سب تلخ حقیقتوں پہ حاوی
رہتا ہے نظر میں خواب سا وُہ
خوشبُو سا خیال میں دَر آئے
آنکھوں میںبسے گلاب سا وُہ
اُبھرے بھی جو سطحِ آرزُو پر
روکے نہ رُکے حباب سا وُہ
یہ اذنِ طرب ترے لبوں پر
خوشبو کا کلی سے ہے نکلنا
مشکل ہے بغیرِ قرب تیرے
اِس رُوح و بدن کا اب سنبھلنا
There are currently 6 users browsing this thread. (0 members and 6 guests)
Bookmarks