خوش نوائی نے رکھا ہم کو اسیر اے صیّاد!
ہم سے اچھے رہے صدقے میں اترنے والے
پوری مہندی بھی لگانی نہیں آئی اب تک
کیوں کر آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا
کہیں مشتاق سے حجاب ہوا
کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے
دوست دشمن ہیں سبھی بزم میں* دیکھیں کیا ہو
کس سے خوش ہوتے ہیں وہ کس سے خفا ہوتے ہیں
داد خواہوں سے وہ کہتے ہیں*کہو ہم بھی تو سنیں
دو گے تم حشر میں سب مل کے دُہائی کیوں*کر
تنہا بھی جب رہے تو وہ رہتے ہیں*ہوشیار
خود اپنے پاسباں* ہیں اگر پاسباں نہیں
وعدے کی شب رہا ہے کیا انتظار مجھ کو
آنے کا وہ یہاں تک سامان کر کے بھولے
وہ جو تجھ سے دوستی کرنے لگا
مجھ کو دشمن سےمحبت ہو گئی
مفت پیتے ہیں وہ ہر قسم کی
جن کو مے خانے کی خدمت ہو گئی
There are currently 7 users browsing this thread. (0 members and 7 guests)
Bookmarks