ایسا نہ ہو کہ پھر کبھی فرصت نہ مل سکے
ماجدؔ چلو کہ فصلِ تمّنا اٹھائیں ہم
منصف ہے گر تو دل سے طلب کر یہ فیصلہ
تُجھ سے بچھڑ کے کون سے زنداں میں جائیں ہم
ہو تُجھ سا مدّعائے نظر سامنے تو پھر
ساحل پہ کشتیوں کو نہ کیونکر جلائیں ہم
اِخفا سہی پہ کچھ تو سپُردِ قلم بھی ہو
دیکھا ہے آنکھ سے جو سبھی کو دکھائیں ہم
رچتی ہے جیسے پھُول کی خوشبُو ہواؤں میں
اِک دُوسرے میں یُوں بھی کبھی تو دَر آئیں ہم
بیدار جس سے خُفتہ لہوہو ترنگ میں
ایسا بھی کوئی گیت کبھی گنگنائیں ہم
نِکھری رُتوں کا حسن، فضا سے چرائیں ہم
آؤ کہ جسم و جاں کے شگوفے کھلائیں ہم
لکھا ہے یہ اُس کا نام ماجِد
یا پھول سرِورق کھلا ہے
ممکن نہیں اُس تلک رسائی
اُس شخص کی اور ہی ادا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks