نہیں ہے کوئی بھی میرے ہمراہ جانے والا
تو موج در موج اس روانی کا کیا کروں میں
گر اِن اندھیروں کے زخم تو نے بھرے نہیں تو
افق افق تیری حکمرانی کا کیا کروں میں
چراغِ امید جل اٹھا ہے مگر مرے دل
سیاہ تر داغِ بدگمانی کا کیا کروں میں
گونجتا ہوں دلوں کے گنبد میں
ایک آوازۂ محبت ہوں
نارسائی مرا مقدر ہے
زیرِ لب اک بیانِ حسرت ہوں
دلِ آسودہ ہے وطن میرا
میں تمنائے دشتِ غربت ہوں
میں ہوں اک پیکرِ خیال و خواب
اور کتنی بڑی حقیقت ہوں
گرچہ میں حرفِ خاک ہوں خورشید
پھر بھی زیبِ کتابِ فطرت ہوں
اُجالنا ہیں مجھے تیرگی میں رستے بھی
شجر شجر بھی مجھے سایۂ دار کرنا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks