میری غزل کے بے معنی سے حرفوں میں
تیری یاد معانی بھرنے آئی تھی
تیرے بدن کی خوشبو میری سانسوں میں
کوئی شام سہانی بھرنے آئی تھی
میرے خوابوں کے دامن میں اے خورشید
خوشبو، رات کی رانی بھرنے آئی تھی
چراغِ زخمِ تمنا کی لو بڑھائے ہوئے
فصیلِ غم میں ہے اک آس در بنائے ہوئے
اک آرزو کے سفر سے پلٹ رہا ہوں میں
دلِ و نگاہ کی محرومیاں اٹھائے ہوئے
کوئی نہیں جو مٹائے مری سیہ بختی
فلک پہ کتنے ستارے ہیں جگمگائے ہوئے
کوئی فرات کا دریا ہیں میری آنکھیں بھی
ہوائے درد ہے پہرے جہاں بٹھائے ہوئے
بہت دنوں سے ہے خورشید یہ خرابۂ دل
مرے نصیب کی ویرانیاں بسائے ہوئے
کوئی ٹوٹا ہوا پتا، کوئی بکھرا ہوا خواب
درد کی جوت جگاتا ہی چلا جاتا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks