جہاں وہ چلتے چلتے کھو گیا ہے
وہ رستہ مجھ کو ازبر ہو گیا ہے
صبح نہ جانے تکیہ کیوں ہوتا ہے سرخ رات تو میں پانی سے بھگویا کرتی ہوں
سوچ سمندر کے اکثر خواب سفر میں تھک کر اپنا آپ ڈبویا کرتی ہوں
میں تو بے مول ایک آنسو تھا
تیرے غم نے گہر کیا ہے مجھے
قافلوں کو تلاش ہے میری
تو نے یوں رہگذر کیا ہے مجھے
ایک پل ہوں محیط صدیوں پر
روز و شب نے بسر کیا ہے مجھے
دن مجھے شام کر گیا خورشید
اور شب نے سحر کیا ہے مجھے
صحرا کی ویرانی بھرنے آئی تھی
اور کوئی دیوانی بھرنے آئی تھی
اک دن میری تنہائی کے زخموں کو
سرد ہوا مستانی بھرنے آئی تھی
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks