کوئی بے چین سا بچہ تھا مجھ میں
اور اب لگتا ہے تھک کر سو گیا ہے
ابھی تک نم ہے یہ تکیے کا کونا
یہ کیسا درد کوئی رو گیا ہے
خدا جانے کبھی لوٹے نہ لوٹے
مگر ایسا ہی کچھ کہہ تو گیا ہے
اگے گی اب سحر تیرہ رتوں میں
کوئی غم کے ستارے بو گیا ہے
میں تو روز اکیلی رویا کرتی ہوں
روتے روتے اکثر سویا کرتی ہوں
خوفزدہ ہوں منزل کے اندیشوں سے
راہوں میں دانستہ کھویا کرتی ہوں
پانی کم ہو تو آنکھوں کی جھیلوں میں
چن چن کر یہ اشک سمویا کرتی ہوں
لمحہ لمحہ ہے میرا مصروف بہت
جگمگ جگمگ زخم پرویا کرتی ہوں
صبا! خاکِ دل سے بچا اپنا دامن
ابھی اس میں چنگاریاں اور بھی ہیں
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks