نہ اس کے دل سے مٹایا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاک پریشاں مرا غبار کیا
قصور تیری نگہ کا ہے کیا خطا اس کی
لگاوٹوں نے بڑھا یا ہے حوصلہ دل کا
ہم بزم میں ان کی چپکے بیٹھے
منہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا
رہا نہ دل میں وہ بےدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا
ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے
مگر اپنی زندگی کا، ہمیں اعتبار ہوتا
کسی نے ملنے کا کیا وعدہ ۔ کہ داغ
آج ہو تم اور ہی سامان میں
کیا کہا؟، پھر تو کہو، ’’ہم نہیں سنتے تیری’’
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں
دم رکتے ہی سینہ سے نکل پڑتے ہیں آنسو
بارش کی علامت ہے جو ہوتی ہے ہوا بند
وجود و عدم دونوں گھر پاس نکلے
نہ یہ دور نکلا ۔ نہ وہ دور نکلا
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks