بیکار حسرتوں کو ذرا چھانٹ کیا لیا
ہم اپنی منزلوں کے بھی مختار ہو گئے
آزاد تھے تو اپنی زمینیں بلند تھیں
ہاتھوں میں لے کے چاند گرفتار ہو گئے
ڈوبے ہیں ساحلوں کی سرکتی سی ریت میں
لے پانیوں کے ہم بھی طلب گار ہو گئے
ہم ہی سے تو زباں کی حلاوت کا ذکر تھا
ہم ہی مثالِ تلخی ِ گفتار ہو گئے
چاند ، دریا ستارے چھوٹے ہیں
عشق کے استعارے جھوٹے ہیں
اس کے لہجے سے صاف ظاہر ہے
اس کے الفاظ سارے جھوٹے ہیں
ایک تنہائی ہی حقیقت ہے
اور باقی سہارے جھوٹے ہیں
کوئی موجود ہی نہیں مجھ میں
دل کے سندر نظارے جھوٹے ہیں
اک سمندر ہے اور کشتی ہے
زندگی کے کنارے جھوٹے ہیں
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks